دور دیسوں سے بلائے بھی نہیں جا سکتے
وہ پکھیرو جو بھلائے بھی نہیں جا سکتے
تُرش خُو، تیز مزہ پھل ہیں یہاں کے اور ہم
بنا چکھے، بنا کھائے بھی نہیں جا سکتے
حیرتِ مرگ، بلاوا ہے یہ اس جانب سے
جس طرف دھیان کے سائے بھی نہیں جا سکتے
کرچی کرچی کی چبھن سہنا بھی آسان نہیں
خواب آنکھوں سے چھپائے بھی نہیں جا سکتے
کچھ جو کہتا ہوں تو پھر اپنا ہی دل کٹتا ہے
لوگ اپنے ہیں رُلائے بھی نہیں جا سکتے
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ سُن کے میرے عشق کی روداد کو
سُن کے میرے عشق کی روداد کو لوگ بھولے قیس کو فرہاد کو اے نگاہِ یاس!... -
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو...